Iztirab

Iztirab

اقبالؔ کے مزار پر

لحد میں سو رہی ہے آج بے شک مشت خاک اس کی 
مگر گرم عمل ہے جاگتی ہے جان پاک اس کی 
وہ اک فانی بشر تھا میں یہ باور کر نہیں سکتا 
بشر اقبال ہو جائے تو ہرگز مر نہیں سکتا 
بہ زیر سایۂ دیوار مسجد ہے جو آسودہ 
یہ خاکی جسم ہے ستر برس کا راہ پیمودہ 
یہ خاکی جسم بھی اس کا بہت ہی بیش قیمت تھا 
جسے ہم جلوہ سمجھے تھے وہ پردہ بھی غنیمت تھا 
اسے ہم ناپتے تھے لے کے آنکھوں ہی کا پیمانا 
غزل خواں اس کو جانا ہم نے شاعر اس کو گردانا 
فقط صورت ہی دیکھی اس کے معنی ہم نہیں سمجھے 
نہ دیکھا رنگ تصویر آئنے کو دل نشیں سمجھے 
ہمیں ضعف بصارت سے کہاں تھی تاب نظارہ 
سکھائے اس کے پردے نے ہمیں آداب نظارا 
یہ نغمہ کیا ہے زیر پردہ ہائے ساز کم سمجھے 
رہے سب گوش بر آواز لیکن راز کم سمجھے 
شکست پیکر محسوس نے توڑا حجاب آخر 
طلوع صبح محشر بن کے چمکا آفتاب آخر 
مقید اب نہیں اقبالؔ اپنے جسم فانی میں 
نہیں وہ بند حائل آج دریا کی روانی میں 
وجود مرگ کی قائل نہیں تھی زندگی اس کی 
تعالی اللہ اب دیکھے کوئی پائندگی اس کی 
جسے ہم مردہ سمجھے زندہ تر پائندہ تر نکلا 
مہ و خورشید سے ذرے کا دل تابندہ تر نکلا 
ابھی اندازہ ہو سکتا نہیں اس کی بلندی کا 
ابھی دنیا کی آنکھوں پر ہے پردہ فرقہ بندی کا 
مگر میری نگاہوں میں ہیں چہرے ان جوانوں کے 
جنہیں اقبالؔ نے بخشے ہیں بازو قہر مانوں کے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *