Iztirab

Iztirab

الم مآل اگر ہے تو پھر خوشی کیا ہے

الم مآل اگر ہے تو پھر خوشی کیا ہے 
کوئی سزا ہے گناہوں کی زندگی کیا ہے 
ہمیں وہ یوں بھی بالآخر مٹائیں گے یوں بھی 
ستم کے بعد کرم بھی تو ہے ابھی کیا ہے 
نظام بزم دو عالم ہے انتشار آگیں 
نگاہ دوست میں آثار برہمی کیا ہے 
کسی مقام پہ بھی مطمئن نہیں نظریں 
زیاں ہے ذوق تجسس کا آگہی کیا ہے 
نماز عشق جو شامل نہیں عبادت میں 
فریب کفر سراسر ہے بندگی کیا ہے 
بدل گئی نہ اگر باغباں کی نیت ہی 
چمن کا رنگ بدلنے میں دیر ہی کیا ہے 
گزر گئی ہے شب غم یقیں نہیں آتا 
سحر نمود نہیں ہے تو روشنی کیا ہے 
متاع حسن دو عالم سے بھی سوا کہئے 
قمر جمال ہے تصویر آپ کی کیا ہے 
جو سحر حسن کی تاثیر کا نہیں قائل 
تری نظر سے وہ پوچھے کہ ساحری کیا ہے 
کسی کا حسن کہاں اپنا ذوق دید کہاں 
کسی کے جلووں سے نظروں کی ہمسری کیا ہے 
قدم قدم پہ دیا ہے فریب رہبر نے 
جو رہبری اسے کہئے تو رہزنی کیا ہے 
ہمارے دل پہ اچٹتی نظر ہی ڈال کہیں 
تجھے خبر تو چلے سوز عاشقی کیا ہے 
ہمیں نے دل میں جگہ دی ہمیں پہ مشق ستم 
یہ دوستی ہے تو اے دوست دشمنی کیا ہے 
بہار آئی ہے اب آپ بھی چلے آئیں 
بہار کو بھی خبر ہو شگفتگی کیا ہے 
وفا کا نام بڑا ہو تو ہو رشیؔ ورنہ 
جفائے دوست میں بھی لطف کی کمی کیا ہے

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *