Iztirab

Iztirab

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا 
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند 
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا 
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی 
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا 
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا 
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں 
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا 
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی 
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا 
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام 
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا 
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں 
جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا 
کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے 
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا 
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے 
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا 
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی 
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا 
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے 
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا 
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے 
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا 
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی 
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا 
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو 
.قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *