الہی عقل خجستہ پہ کو ذرا سی ديوانگی سکھا دے اسے ہے سودائے بخيہ کاری، مجھے سر پيرہن نہيں ہے ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے مثال شمع مزار ہے تو، تری کوئی انجمن نہيں ہے يہاں کہاں ہم نفس ميسر، يہ ديس نا آشنا ہے اے دل وہ چيز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زير چرخ کہن نہيں ہے نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنايا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہيں ہے کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فريب ہے امتياز عقبی نمود ہر شے ميں ہے ہماری، کہيں ہمارا وطن نہيں ہے مدير "مخزن" سے کوئی اقبال جا کے ميرا پيام کہہ دے جوکام کچھ کر رہی ہيں قوميں، انھيں مذاق سخن نہيں ہے
علامہ محمد اقبال