Iztirab

Iztirab

امید شوق ہو یا وعدۂ راحت فزا کوئی

امید شوق ہو یا وعدۂ راحت فزا کوئی 
مریض عشق کو اچھا نہیں کرتی دوا کوئی 
بھری دنیا میں اپنے بھی ہیں بیگانے بھی ہیں لیکن 
نہیں ہمدرد اب میرا ترے غم کے سوا کوئی 
پرانا ہو گیا ہے ذکر توبہ چھوڑیئے ساقی 
پرانی ہو تو لا کوئی رکھا کوئی پلا کوئی 
مجھے یہ عرض کرنی ہے تمہاری بے نیازی سے 
تمہاری آرزو کے بعد کیسا مدعا کوئی 
یہ اپنی اپنی عادت ہے یہ اپنی اپنی فطرت ہے 
کوئی ہے بندۂ مہر و وفا تو بے وفا کوئی 
زمانے کی نگاہوں میں گنہ گار وفا ہم ہیں 
نہ جانے کیوں نہیں ہوتا ہمارا فیصلہ کوئی 
یہ دل اٹکے کا سودا ہے یہ دل آئے گا قصہ ہے 
محبت کی نگاہوں میں نہیں اچھا برا کوئی 
سما کر دل میں پردا ہے نگاہ شوق سے یعنی 
خود اپنے آپ سے چھپتا ہے اب کافر ادا کوئی 
رشیؔ ہم ہر کسی سے حال دل کا کہہ نہیں سکتے 
بڑی مشکل سے ملتا ہے کہیں درد آشنا کوئی 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *