امید شوق ہو یا وعدۂ راحت فزا کوئی مریض عشق کو اچھا نہیں کرتی دوا کوئی بھری دنیا میں اپنے بھی ہیں بیگانے بھی ہیں لیکن نہیں ہمدرد اب میرا ترے غم کے سوا کوئی پرانا ہو گیا ہے ذکر توبہ چھوڑیئے ساقی پرانی ہو تو لا کوئی رکھا کوئی پلا کوئی مجھے یہ عرض کرنی ہے تمہاری بے نیازی سے تمہاری آرزو کے بعد کیسا مدعا کوئی یہ اپنی اپنی عادت ہے یہ اپنی اپنی فطرت ہے کوئی ہے بندۂ مہر و وفا تو بے وفا کوئی زمانے کی نگاہوں میں گنہ گار وفا ہم ہیں نہ جانے کیوں نہیں ہوتا ہمارا فیصلہ کوئی یہ دل اٹکے کا سودا ہے یہ دل آئے گا قصہ ہے محبت کی نگاہوں میں نہیں اچھا برا کوئی سما کر دل میں پردا ہے نگاہ شوق سے یعنی خود اپنے آپ سے چھپتا ہے اب کافر ادا کوئی رشیؔ ہم ہر کسی سے حال دل کا کہہ نہیں سکتے بڑی مشکل سے ملتا ہے کہیں درد آشنا کوئی
رشی پٹیالوی