Iztirab

Iztirab

انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا

انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا 
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا 
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں 
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا 
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی 
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا 
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں 
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا 
چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں 
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا 
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر 
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا 
ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی 
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا 
حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندیمؔ 
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *