Iztirab

Iztirab

اندھیرا

رات کے ہاتھ میں اک کاسۂ دریوزہ گری 
یہ چمکتے ہوئے تارے یہ دمکتا ہوا چاند 
بھیک کے نور میں مانگے کے اجالے میں مگن 
یہی ملبوس عروسی ہے یہی ان کا کفن 
اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ 
وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ 
وہ تہذیب کے زخم
خندقیں 
باڑھ کے تار 
باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم 
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ 
وہ تڑختے ہوئے سر 
میتیں ہات کٹی پاؤں کٹی 
لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے اس پار تلک 
سرد ہوا 
نوحہ و نالہ و فریاد کناں 
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا 
کبھی بچوں کی کبھی ماؤں کی 
چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا 
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم 
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے 
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

مخدوم محی الدین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *