Iztirab

Iztirab

اندیشہ

صندلیں جسم کی خوشبو سے مہکتی ہوئی رات 
مجھ سے کہتی ہے یہیں آج بسیرا کر لے 
گر تری نیند اجالوں کی پرستار نہیں 
اپنے احساس پہ زلفوں کا اندھیرا کر لے 

میں کہ دن بھر کی چکا چوند سے اکتایا ہوا 
کسی غنچے کی طرح دھوپ میں کمہلایا ہوا 
اک نئی چھاؤں میں سستانے کو آ بیٹھا ہوں 
گردش دہر کے آلام سے گھبرایا ہوا 

سوچتا ہوں کہ یہیں آج بسیرا کر لوں 

صبح کے ساتھ کڑی دھوپ کھڑی ہے سر پر 
کیوں نہ اس ابر کو کچھ اور گھنیرا کر لوں 
جانے یہ رات اکیلے میں کٹے یا نہ کٹے 
کیوں نہ کچھ دیر شبستاں میں اندھیرا کر لوں 

لیکن اس رات کی یہ بات نہ بڑھ جائے کہیں 
تجھ سے مل کر یہ مرے دل کو لگا ہے دھڑکا 
راکھ ہو جاؤں گا میں صبح سے پہلے پہلے 
کھل کے سینے میں جو احساس کا شعلہ بھڑکا 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *