ان کا وعدہ بدل گیا ہے فردا آنسو میں ڈھل گیا ہے تنہائی سے کچھ ہوئی ہیں باتیں تنہائی سے دل بہل گیا ہے معمول نظر وہی ہے لیکن مفہوم نظر بدل گیا ہے رک جا اے کاروان امروز ماضی میرا کچل گیا ہے ساحل پہ نگاہ آنکھ والو اندھا طوفاں مچل گیا ہے ساغر میں شراب ہے کہ یارو انگارہ کوئی پگھل گیا ہے کس شوخ نگاہ کا تصور رخساروں پہ رنگ مل گیا ہے اٹھے گا ضرور اک نہ اک دن فتنہ فی الحال ٹل گیا ہے ساقی ترے مے کدے میں آ کر انسان ذرا سنبھل گیا ہے دیکھا اے انقلاب تجھ کو تصویر کا رخ بدل گیا ہے مغرب کے افق پہ ہے تبسم سورج مشرق میں ڈھل گیا ہے وہ آئے ہیں یاد شام حسرت یا کوئی چراغ جل گیا ہے منزل پہ شمیمؔ کو نہ پایا شاید آگے نکل گیا ہے
شمیم کرہانی