Iztirab

Iztirab

ان کا وعدہ بدل گیا ہے

ان کا وعدہ بدل گیا ہے 
فردا آنسو میں ڈھل گیا ہے 
تنہائی سے کچھ ہوئی ہیں باتیں 
تنہائی سے دل بہل گیا ہے 
معمول نظر وہی ہے لیکن 
مفہوم نظر بدل گیا ہے 
رک جا اے کاروان امروز 
ماضی میرا کچل گیا ہے 
ساحل پہ نگاہ آنکھ والو 
اندھا طوفاں مچل گیا ہے 
ساغر میں شراب ہے کہ یارو 
انگارہ کوئی پگھل گیا ہے 
کس شوخ نگاہ کا تصور 
رخساروں پہ رنگ مل گیا ہے 
اٹھے گا ضرور اک نہ اک دن 
فتنہ فی الحال ٹل گیا ہے 
ساقی ترے مے کدے میں آ کر 
انسان ذرا سنبھل گیا ہے 
دیکھا اے انقلاب تجھ کو 
تصویر کا رخ بدل گیا ہے 
مغرب کے افق پہ ہے تبسم 
سورج مشرق میں ڈھل گیا ہے 
وہ آئے ہیں یاد شام حسرت 
یا کوئی چراغ جل گیا ہے 
منزل پہ شمیمؔ کو نہ پایا 
شاید آگے نکل گیا ہے 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *