Iztirab

Iztirab

ان کہی

تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میری تخئیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تری آنکھیں ترے عارض ترے ہونٹ
کیسی ان جانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تناؤ
جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے
وہ چھلکتے ہوئے ساغر سی جوانی وہ بدن
جیسے شعلہ سا نگاہوں میں لپک کر رہ جائے
خلوت بزم ہو یا جلوت تنہائی ہو
تیرا پیکر مری نظروں میں ابھر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت ترا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ کہیں تو نے پکارا تو نہیں
گم سی ہو جاتی ہیں نظریں تو خیال آتا ہے
اس میں پنہاں تری آنکھوں کا اشارہ تو نہیں
دھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاں جس دم
تیری زلفیں مرے شانوں پہ بکھر جاتی ہیں
جھک کے جب سر کسی پتھر پہ ٹکا دیتا ہوں
تیری باہیں مری گردن میں اتر آتی ہیں
آنکھ لگتی ہے تو دل کو یہ گماں ہوتا ہے
سر بالیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے الجھے ہوئے بالوں میں کوئی
انگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
جانے کیوں تجھ سے دل زار کو اتنی ہے لگن
کیسی کیسی نہ تمناؤں کی تمہید ہے تو
دن میں تو اک شب مہتاب ہے میری خاطر
سرد راتوں میں مرے واسطے خورشید ہے تو
اپنی دیوانگی شوق پہ ہنستا بھی ہوں میں
اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا ہوں
تجھ کو اپنانے کی ہمت ہے نہ کھو دینے کا ظرف
کبھی ہنستے کبھی روتے ہوئے سو جاتا ہوں میں
کس کو معلوم مرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے کہ مرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ بھی لوں اگر اس کو محبت کا جنوں
تجھ کو اس عشق جنوں خیز سے نسبت کیا ہے
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو نہ ہوگا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میری تخئیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں ترے عارض ترے ہونٹ
کیسی ان جانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *