Iztirab

Iztirab

ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی

ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی
آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی
ان سے ہی آج ان کی ملاقات ہو گئی
طے ان سے روز حشر ملاقات ہو گئی
اتنی سی بات کتنی بڑی بات ہو گئی
کم ظرفی حیات سے تنگ آ گیا تھا میں
اچھا ہوا قضا سے ملاقات ہو گئی
دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے
یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی
آئے ہیں وہ مریض محبت کو دیکھ کر
آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی
تھا اور کون پوچھنے والا مریض کا
تم آ گئے تو پرسش حالات ہو گئی
اے بلبل بہار چمن اپنی خیر مانگ
صیاد و باغباں میں ملاقات ہو گئی
جب زلف یاد آ گئی یوں اشک بہہ گئے
جیسے اندھیری رات میں برسات ہو گئی
گلشن کا ہوش اہل جنوں کو بھلا کہاں
صحرا میں پڑ رہے تو بسر رات ہو گئی
در پردہ بزم غیر میں دونوں کی گفتگو
اٹھی ادھر نگاہ ادھر بات ہو گئی
کب تک قمرؔ ہو شام کے وعدے کا انتظار
سورج چھپا چراغ جلے رات ہو گئی

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *