Iztirab

Iztirab

ان کے پرتو نے کئے نقش اجاگر کتنے

ان کے پرتو نے کئے نقش اجاگر کتنے 
پردۂ دل پہ نمایاں ہوئے منظر کتنے 
کیا قیامت ہے کہ اب خود سے بھی روپوشی ہے 
غم ابھر آئے مرے قد کے برابر کتنے 
ان کے انداز تغافل کو خبر تک نہ ہوئی 
میری رسوائی کے چرچے ہوئے گھر گھر کتنے 
سربلندی کی امیدیں تو لئے بیٹھے ہیں 
ہم نے سوچا نہیں الزام ہیں سر پر کتنے 
غیر تو غیر ہیں اپنوں سے بھی پوچھا نہ گیا 
آستینوں میں چھپا رکھے ہیں خنجر کتنے 
وقت پڑنے پہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا 
پھول کتنے ترے دامن میں ہیں پتھر کتنے 
ڈوب مرنا ہی مقدر ہے تو اب کیا سوچیں 
موج در موج ہیں ساحل پہ سمندر کتنے 
کس کو معلوم تھا منزل کا پتہ ملتے ہی 
اپنے معیار سے گر جائیں گے رہبر کتنے 
دیدۂ شوق سے کس کس کا تعارف ہوگا 
ایک پیکر میں سمٹ آئیں گے پیکر کتنے 
ساقیٔ وقت کی سرشار نگاہی کی قسم 
بے پیے مست ہیں مے خانے سے باہر کتنے 
جب کسی مہر منور کی نظر پھرتی ہے 
ڈوب جاتے ہیں ستاروں کے مقدر کتنے 
کس کی تقدیر میں توقیر ایازی ہوگی 
سر بہ سجدہ ہوئے محمود و سکندر کتنے 
اے رشیؔ جب سے نہ پینے کی قسم کھائی ہے 
لب تک آئے ہیں چھلکتے ہوئے ساغر کتنے 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *