ان کے پرتو نے کئے نقش اجاگر کتنے پردۂ دل پہ نمایاں ہوئے منظر کتنے کیا قیامت ہے کہ اب خود سے بھی روپوشی ہے غم ابھر آئے مرے قد کے برابر کتنے ان کے انداز تغافل کو خبر تک نہ ہوئی میری رسوائی کے چرچے ہوئے گھر گھر کتنے سربلندی کی امیدیں تو لئے بیٹھے ہیں ہم نے سوچا نہیں الزام ہیں سر پر کتنے غیر تو غیر ہیں اپنوں سے بھی پوچھا نہ گیا آستینوں میں چھپا رکھے ہیں خنجر کتنے وقت پڑنے پہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا پھول کتنے ترے دامن میں ہیں پتھر کتنے ڈوب مرنا ہی مقدر ہے تو اب کیا سوچیں موج در موج ہیں ساحل پہ سمندر کتنے کس کو معلوم تھا منزل کا پتہ ملتے ہی اپنے معیار سے گر جائیں گے رہبر کتنے دیدۂ شوق سے کس کس کا تعارف ہوگا ایک پیکر میں سمٹ آئیں گے پیکر کتنے ساقیٔ وقت کی سرشار نگاہی کی قسم بے پیے مست ہیں مے خانے سے باہر کتنے جب کسی مہر منور کی نظر پھرتی ہے ڈوب جاتے ہیں ستاروں کے مقدر کتنے کس کی تقدیر میں توقیر ایازی ہوگی سر بہ سجدہ ہوئے محمود و سکندر کتنے اے رشیؔ جب سے نہ پینے کی قسم کھائی ہے لب تک آئے ہیں چھلکتے ہوئے ساغر کتنے
رشی پٹیالوی