Iztirab

Iztirab

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا 
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا 
خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا 
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا 
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے 
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا 
ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب 
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا 
انہیں حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں 
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا 
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے 
نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا 
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر 
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا 
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں 
سمے کے سم کے ثمر ہیں میں اور کیا رکھتا 
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں 
کہاں ہوں کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا 
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجدؔ 
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا 

مجید امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *