Iztirab

Iztirab

اوپر جو پرند گا رہا ہے

اوپر جو پرند گا رہا ہے 
نیچے کا مذاق اڑا رہا ہے 
مٹی کا بنایا نقش اس نے 
اب نقش کا کیا بنا رہا ہے 
گھر بھر کو یہ طاقچہ مبارک 
خود چل کے چراغ آ رہا ہے 
اب دوری حضوری کیا ہے صاحب 
بس جسم کو جسم کھا رہا ہے 
یہ وقت کا خاص آدمی تھا 
بے وقت جو گھر کو جا رہا ہے 
اب میں نہیں راہ میں تو رستہ 
میری جگہ خاک اڑا رہا ہے 
اول وہ غلط بنانے والا 
آخر کو غلط مٹا رہا ہے 
وہ قافلہ آ سکا نہیں کیوں 
رستہ بھی تو واں سے آ رہا ہے 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *