اِک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا سارے جہاں کا تُجھ کو آرام جاں بنایا بوئے مُحبت اپنی رکھی خُدا نے اس میں سینے میں آدمی کہ دِل عطرداں بنایا اپنی تُو اس چمن میں نت عُمر یُوں ہی گزری یاں آشیاں بنایا واں آشیاں بنایا محنت پہ ٹک نظر کر صُورت گر ازل نے چالیس دِن میں ترا میم دہاں بنایا ازبسکہ اس سفر میں منزل کو ہم نہ پہنچے آوارگی نے ہم کو ریگ رواں بنایا مغرور کیوں نہ ہووے صنعت پر اپنی صانع کس واسطے جب اس نے یہ گلستاں بنایا خُون جِگر سے مرے گُل کی شبیہ کھینچی نالے کو مرے لے کر سرو رواں بنایا آتا ہے مصحفیؔ تُو یہ کس کہ زخم کھائے تیر جفا کا کس نے تُجھ کو نشاں بنایا سُو ٹکڑے ہے گریباں دامن لہو میں تر ہے .یہ رَنگ تُو نے ظالم اپنا کہاں بنایا
مصحفی غلام ہمدانی