Iztirab

Iztirab

اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا

اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا 
دریا ہی پھر تُو نام ہے ہر اِک حباب کا 
کیوں چھوڑتے ہو درد تہ جام مے کشو 
ذرہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا 
ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جام مے 
رونا بجا ہے حال پہ مرے سحاب کا 
ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ 
اِس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا 
اِس دشت پر سراب میں بہکے بہت پہ حیف 
دیکھا تُو دُو قدم پہ ٹھکانا تھا آب کا 
زاہد مریض عشق پہ ہو شرب مے حرام 
بارے یہ مسئلہ ہے ، تیری کس کتاب کا 
جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائمؔ کی ہو جگہ 
.آخر وُہ خاک پا ہے شہ بو تراب کا 

قائم چاند پوری 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *