Iztirab

Iztirab

اپنی دھن میں ہوں خیال ماسوا سے کیا غرض

اپنی دھن میں ہوں خیال ماسوا سے کیا غرض 
آشنا سے کیا غرض نا آشنا سے کیا غرض 
بات کچھ دل کی سنی اے نسبت ذات و صفات 
ہو بتوں سے بے نیازی تو خدا سے کیا غرض 
زندگی کا اول و آخر تھی وہ پہلی نظر 
ابتدا سے کیا تعلق انتہا سے کیا غرض 
مدعا آموز ہے حسن تمنا آفریں 
اس دل بے مدعا کو مدعا سے کیا غرض 
عمر بھر اس کی جفا کو ہم وفا سمجھا کیے 
کیا خبر وابستہ تھی اس بے وفا سے کیا غرض 
حسن مستغنیٰ کی ہم نے بات رکھ لی اے ذھینؔ 
ورنہ عشق بے غرض کو التجا کیا غرض 

ذہین شاہ تاجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *