Iztirab

Iztirab

اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے

اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے 
رات ہے لیکن مرے لب پر سحر کی بات ہے 
آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی گئی 
کم نظر سمجھے کہ مشت بال و پر کی بات ہے 
تا ابد کتنے اندھیرے تھے کہ روشن ہو گئے 
شمع کا جلنا بظاہر رات بھر کی بات ہے 
زندگی صدیوں کا حاصل زندگی صدیوں کا روپ 
زندگی جو چشمک برق و شرر کی بات ہے 
منزل اک رہرو کا تھک جانا ہے ورنہ زندگی 
اک مسلسل رہ گزر پیہم سفر کی بات ہے 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *