Iztirab

Iztirab

اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا

اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا 
دشت میں آج بھی اٹھتے ہیں بگولے کیا کیا 
عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام 
ورنہ ادراک نے دکھلائے تھے رستے کیا کیا 
یہ الگ بات کہ برسے نہیں گرجے تو بہت 
ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ امڈے کیا کیا 
آگ بھڑکی تو در و بام ہوئے راکھ کے ڈھیر 
اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا 
لوگ اشیا کی طرح بک گئے اشیا کے لیے 
سر بازار تماشے نظر آئے کیا کیا 
لفظ کس شان سے تخلیق ہوا تھا لیکن 
اس کا مفہوم بدلتے رہے نقطے کیا کیا 
اک کرن تک بھی نہ پہنچی مرے باطن میں ندیمؔ 
سر افلاک دمکتے رہے تارے کیا کیا 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *