Iztirab

Iztirab

اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا

اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا 
اس دل کو کیا کہوں کہ دوانے نے کیا کیا 
یاں تک ستانا مج کو کہ رو رو کہے تو ہائے 
یارو نہ تم سنا کہ فلانے نے کیا کیا 
پردہ تو راز عشق سے اے یار اٹھ چکا 
بے سود ہم سے منہ کے چھپانے نے کیا کیا 
آنکھوں کی رہبری نے کہوں کیا کہ دل کے ساتھ 
کوچے کی اس کے راہ بتانے نے کیا کیا
کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں 
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا 
ٹک در تک اپنے آ مرے ناصح کا حال دیکھ 
میں تو دوانا تھا پہ سیانے نے کیا کیا
چاہوں میں کس طرح یہ زمانے کی دوستی 
اوروں سے دوست ہو کے زمانے نے کیا کیا
کہتا تھا میں گلے کا ترے ہو پڑوں گا ہار 
دیکھا نہ گل کو سر پہ چڑھانے نے کیا کیا 
سوداؔ ہے بے طرح کا نشہ جام عشق میں 
.دیکھا کہ اس کو منہ کے لگانے نے کیا کیا

مرزا محمد رفیع سودا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *