Iztirab

Iztirab

اپنے کو تلاش کر رہا ہوں

اپنے کو تلاش کر رہا ہوں
اپنی ہی طلب سے ڈر رہا ہوں
تم لوگ ہو آندھیوں کی زد میں
میں قحط ہوا سے مر رہا ہوں
خود اپنے ہی قلب خونچکاں میں
خنجر کی طرح اتر رہا ہوں
اے شہر خیال کے مسافر
کیا میں ترا ہم سفر رہا ہوں
دیوار پہ دائرے ہیں کیسے
یہ کون ہے کس سے ڈر رہا ہوں
میں شبنم چشم تر سے اے صبح
کل رات بھی تر بہ تر رہا ہوں
اک شخص سے تلخ کام ہو کر
ہر شخص کو پیار کر رہا ہوں
اے دجلۂ خوں ذرا ٹھہرنا
اس راہ سے میں گزر رہا ہوں
فریاد کہ زیر سایہ گل
میں زہر‌ خزاں سے مر رہا ہوں
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *