Iztirab

Iztirab

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو 
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو 
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن 
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو 
ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم 
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو 
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی 
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو 
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی 
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو 
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی 
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو 
باندھ کر سنگ وفا کر دیا تو نے غرقاب 
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو 
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن 
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو 
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے 
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو 
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں 
جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو 
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ 
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *