Iztirab

Iztirab

اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے

اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے 
اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے 
ہم ہیں ترا خیال ہے تیرا جمال ہے 
اک پل بھی اپنے آپ کو تنہا کیا نہ جائے 
اٹھنے کو اٹھ تو جائیں تری انجمن سے ہم 
پر تیری انجمن کو بھی سونا کیا نہ جائے 
ان کی روش جدا ہے ہماری روش جدا 
ہم سے تو بات بات پہ جھگڑا کیا نہ جائے 
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر 
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے 
لہجہ بنا کے بات کریں ان کے سامنے 
ہم سے تو اس طرح کا تماشا کیا نہ جائے 
انعام ہو خطاب ہو ویسے ملے کہاں 
جب تک سفارشوں کو اکٹھا کیا نہ جائے 
اس وقت ہم سے پوچھ نہ غم روزگار کے 
ہم سے ہر ایک گھونٹ کو کڑوا کیا نہ جائے 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *