Iztirab

Iztirab

اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا

اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا 
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا 
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آ جائے 
میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانا دل کا 
نگہ یار نے کی خانہ خرابی ایسی 
نہ ٹھکانا ہے جگر کا نہ ٹھکانا دل کا 
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک 
کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا 
غنچہ گل کو وہ مٹھی میں لیے آتے تھے 
میں نے پوچھا تو کیا مجھ سے بہانا دل کا 
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ 
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا 
دے خدا اور جگہ سینہ و پہلو کے سوا 
کہ برے وقت میں ہو جائے ٹھکانا دل کا 
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے 
ان کا جانا تھا الٰہی کہ یہ جانا دل کا 
نگہ شرم کو بے تاب کیا کام کیا 
رنگ لایا تری آنکھوں میں سمانا دل کا 
انگلیاں تار گریباں میں الجھ جاتی ہیں 
سخت دشوار ہے ہاتھوں سے دبانا دل کا 
حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم 
اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا 
چھوڑ کر اس کو تری بزم سے کیوں کر جاؤں 
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا 
بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں 
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا 
بعد مدت کے یہ اے داغؔ سمجھ میں آیا 
.وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا

داغ دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *