Iztirab

Iztirab

اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے

اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے 
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے 
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے 
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے 
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز 
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے 
ہے اور ہی کاروبار مستی 
جی لینا تو زندگی نہیں ہے 
ساقی سے جو جام لے نہ بڑھ کر 
وہ تشنگی تشنگی نہیں ہے 
عاشق کشی و فریب کاری 
یہ شیوۂ دلبری نہیں ہے 
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی 
یہ برق ابھی گری نہیں ہے 
دل میں جو جلائی تھی کسی نے 
وہ شمع طرب بجھی نہیں ہے 
اک دھوپ سی ہے جو زیر مژگاں 
وہ آنکھ ابھی اٹھی نہیں ہے 
ہیں کام بہت ابھی کہ دنیا 
شائستۂ آدمی نہیں ہے 
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون 
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے 

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *