Iztirab

Iztirab

اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے

اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے
حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ کیا جانیے کیا ہے
سو بار جلا ہے تو یہ سو بار بنا ہے
ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے کہ اک برق بلا ہے
آنکھوں کا اشارہ ہے کہ سیلاب فنا ہے
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
ہے تیرے تصور سے یہاں نور کی بارش
یہ جان حزیں ہے کہ شبستان حرا ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *