Iztirab

Iztirab

اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہوگا

اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہوگا
وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہوگا
بھلا اہل جنوں سے ترک ویرانہ تو کیا ہوگا
خبر آئے گی ان کی ان کا اب آنا تو کیا ہوگا
سنے جاؤ جہاں تک سن سکو جب نیند آئے گی
وہیں ہم چھوڑ دیں گے ختم افسانہ تو کیا ہوگا
اندھیری رات زنداں پاؤں میں زنجیر تنہائی
اس عالم میں مر جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا
ابھی تو مطمئن ہو ظلم کا پردہ ہے خاموشی
اگر کچھ منہ سے بول اٹھا یہ دیوانہ تو کیا ہوگا
جناب شیخ ہم تو رند ہیں چلو سلامت ہے
جو تم نے توڑ بھی ڈالا یہ پیمانہ تو کیا ہوگا
یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے
قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *