Iztirab

Iztirab

اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل

اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل
حجرہ ہفت بلا ہے مرا دل
مہبط روح ازل میرا دماغ
اور آسیب زدہ ہے مرا دل
سر جھکا کر مرے سینے سے سنو
کتنی صدیوں کی صدا ہے مرا دل
اجنبی زاد ہوں اس شہر میں میں
اجنبی مجھ سے سوا ہے مرا دل
آؤ قصد سفر نجد کریں
راہ ہے راہنما ہے مرا دل
چند بے نام و نشاں قبروں کا
میں عزا دار ہوں یا ہے مرا دل
نہ تقاضا ہے کسی سے نہ طلب
مدعا ہے نہ دعا ہے مرا دل
راکھ بن بن کے اڑی ہے مری روح
خون ہو ہو کے بہا ہے مرا دل
پہلے میں دل پہ خفا ہوتا تھا
اور اب مجھ سے خفا ہے مرا دل
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *