Iztirab

Iztirab

اہل عشق کی ہستی کیا عجیب ہستی ہے

اہل عشق کی ہستی کیا عجیب ہستی ہے 
مرگ ناگہانی کو زندگی ترستی ہے 
نام ہے سکوں جس کا جنس وہ نہیں ملتی 
اشک جس کا حاصل ہیں وہ خوشی تو سستی ہے 
جس جگہ محبت سے حسن و عشق ملتے ہیں 
کون سی وہ دنیا ہے کون سی وہ بستی ہے 
سو طرح رلاتی ہے بھول کر اگر ہنسئے 
روئیے تو یہ دنیا کھلکھلا کے ہنستی ہے 
کیا ضرور پی کر ہی ہم سرور میں آئیں 
وہ نظر سلامت ہے بے پیے ہی مستی ہے 
جلوہ ہائے رنگ و بو دل میں کیا جگہ پائیں 
آنکھ میں جو بستا ہے دل تو اس کی بستی ہے 
دوسرے کے ساغر پر جو نظر نہیں رکھتے 
ان کی مے پرستی میں شان حق پرستی ہے 
کس کی مے فروش آنکھیں بس گئیں تصور میں 
بے نیاز جام و مے اپنی مے پرستی ہے 
دل انہیں ترستا ہے جب وہ دور ہوتے ہیں 
جب قریب آتے ہیں آنکھ انہیں ترستی ہے 
ہم نے عشق و الفت میں وہ فریب کھائے ہیں 
جن کی دل فریبی کو زندگی ترستی ہے 
صدقے آسماں جاہی تیرے خاکساروں پر 
رشک صد بلندی ہے عشق میں جو پستی ہے 
بے ثبات پاتا ہوں اکثر ان امیدوں کو 
ہائے جن امیدوں پر انحصار ہستی ہے 
جب ذرا خیال آیا ہوش ہو گئے رخصت 
اے رشیؔ ان آنکھوں میں کس بلا کی مستی ہے 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *