Iztirab

Iztirab

ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے

ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے 
جو زخم اس کو آیا ہے آیا نہیں مجھے 
دیوار کو گرا کے اٹھایا بھی میں نے تھا 
دیوار نے گرا کے اٹھایا نہیں مجھے 
میں خود بھی آ رہا تھا جگہ ڈھونڈتے ہوئے 
یاں تک یہ انہدام ہی لایا نہیں مجھے 
میرا یہ کام اور کسی کے سپرد ہے 
خود خواب دیکھنا ابھی آیا نہیں مجھے 
کل نیند میں چراغ کو ناراض کر دیا 
سورج نے آج صبح جگایا نہیں مجھے 
زنجیر لازمی ہے کہ زنجیر کے بغیر 
چلنا زمین پر ابھی آیا نہیں مجھے 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *