Iztirab

Iztirab

ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی
وہی خانہ بدوش امیدیں
وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی
دل کے گنجان راستوں پہ کہیں
تیری آواز اور تو ہے ابھی
زندگی کی طرح خراج طلب
کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی
بولتے ہیں دلوں کے سناٹے
شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی
زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا
شاخ میں شدت نمو ہے ابھی
ورنہ انسان مر گیا ہوتا
کوئی بے نام جستجو ہے ابھی
ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے
یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *