Iztirab

Iztirab

ایک اور سال گرہ

لو تیسواں سال بھی بیت گیا 
لو بال روپہلی ہونے لگے 
لو کاسۂ چشم ہوا خالی 
لو دل میں نہیں اب درد کوئی 
یہ تیس برس کیسے کاٹے 
یہ تیس برس کیسے گزرے 
آسان سوال ہے کتنا یہ

معلوم ہے مجھ کو یہ دنیا 
کس طرح وجود میں آئی ہے 
کس طرح فنا ہوگی اک دن 
معلوم ہے مجھ کو انساں نے 
کس طرح سے کی تخلیق خدا 
کس طرح بتوں کو پیدا کیا 
معلوم ہے مجھ کو میں کیا ہوں 
کس واسطے اب تک زندہ ہوں 
اک اس کے جواب کا علم نہیں 
یہ تیس برس کیسے کاٹے 
ہاں یاد ہے اتنا میں اک دن 
ٹافی کے لیے رویا تھا بہت 
اماں نے مجھے پیٹا تھا بہت 
ہاں یاد ہے اتنا میں اک دن 
تتلی کا تعاقب کرتے ہوئے 
اک پیڑ سے جا ٹکرایا تھا 
ہاں اتنا یاد ہے میں اک دن 
نیندوں کے دیار میں سپنوں کی 
پریوں سے لپٹ کر سویا تھا 
ہاں اتنا یاد ہے میں اک دن 
گھر والوں سے اپنے لڑ بھڑ کے 
توڑ آیا تھا سب رشتے ناطے 
ہاں اتنا یاد ہے میں اک دن 
جب بہت دکھی تھا تنہا تھا 
اک جسم کی آگ میں پگھلا تھا 

ہاں یہ بھی یاد ہے میں اک دن 
سچ بول کے پچھتایا تھا بہت 
اپنے سے بھی شرمایا تھا بہت 
ہاں یہ بھی یاد ہے مجھ کو کہ میں 
جب بہت ہی بے کل ہوتا تھا 
اشعار بھی لکھا کرتا تھا 

ہاں یہ بھی یاد ہے مجھ کو کہ میں 
روٹی روزی کی تمنا میں 
بڑا خوار ہوا اس دنیا میں 

ہاں اور بھی کچھ ہے یاد مجھے 
مگر اس کا جواب کہاں یہ سب 
یہ تیس برس کیسے گزرے 
یہ تیس برس کیسے کاٹے 
اب اس کے جواب سے کیا ہوگا 
چلو اٹھو کہ صبح ہوئی دیکھو 
چلو اٹھو کہ اپنا کام کریں 
چلو اٹھو کہ شہر تمنا میں 
مرہم ڈھونڈیں ان زخموں کا 
جو دل نے ابھی تک کھائے نہیں 
تعبیر کریں ان خوابوں کی 
جو آنکھوں نے دکھلائے نہیں 

ان لمحوں کے ہم راز بنیں 
جو زیست میں اپنی آئے نہیں 

چلو تیسواں سال بھی بیت گیا 
چلو مے چھلکائیں جشن کریں 
چلو سر کو جھکائیں سجدے میں 
اس عمر فرومایہ کا سفر 
آدھے سے زیادہ ختم ہوا 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *