Iztirab

Iztirab

ایک تھی عورت

یہ جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں 
یوں ہی چیخو چلاؤ ہنس دو یوں ہی ہاتھ اٹھاؤ ہوا میں ہلاؤ ہلا کر گرا دو 
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو 
کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے 
کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کرو ایسی باتیں 
ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے 
جو گنجان پیڑوں کی شاخوں سے ٹکرائے دل کو انوکھی پہیلی بجھائے مگر وہ پہیلی سمجھ میں نہ آئے 

کوئی سرد چشمہ ابلتا ہوا اور مچلتا ہوا یاد آئے 
جو ہو دیکھنے میں ٹپکتی ہوئی چند بوندیں 
مگر اپنی حد سے بڑھے تو بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر 
یہ جی چاہتا ہے کہ ہم ایسے ساگر کی لہروں پہ ایسی ہوا سے بہائیں وہ کشتی جو بہتی نہیں ہے 
مسافر کو لیکن بہاتی چلی جاتی ہے اور پلٹ کر نہیں آتی ہے ایک گہرے سکوں سے ملاتی چلی جاتی ہے 
یہ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی یوں ہی چیخیں چلائیں ہنس دیں یوں ہی ہاتھ اٹھائیں 
ہوا میں ہلائیں ہلا کر گرا دیں 
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگے ہیں 
مگر تم ہمیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لو 
مچلنے لگیں تو سنبھالو 
کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کریں ایسی باتیں 
تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے 
وہی سرسراتی ہوا جس کے میٹھے فسوں سے دوپٹہ پھسل جاتا ہے 
وہی سرسراتی ہوا جو ہر انجان عورت کے بکھرے ہوئے گیسوؤں کو 
کسی سوئے جنگل پہ گنگھور کالی گھٹا کا نیا بھیس دے کر 
جگا دیتی ہے 

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے 
ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے 
یہ جی چاہتا ہے 
مگر اپنی حد سے بڑھے تو ہر اک شے بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر 
وہ ساگر جو بہتے مسافر کو آگے بہاتا نہیں ہے جھکولے دئیے جاتا ہے بس 
جھکولے دئیے جاتا ہے 
اور پھر جی ہی جی میں مسافر یہ کہتا ہے اپنی کہانی نئی تو نہیں ہے 
پرانی کہانی میں کیا لطف آئے 
ہمیں آج کس نے کہا تھا پرانی کہانی سناؤ 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *