Iztirab

Iztirab

ایک لڑکا

دیار شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم جھٹپٹے کے وقت راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے سونی راہوں میں
کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
برہنہ پاؤں جلتی ریت یخ بستہ ہواؤں میں
گریزاں بستیوں سے مدرسوں سے خانقاہوں میں
کبھی ہم سن حسینوں میں بہت خوش کام و دل رفتہ
کبھی پیچاں بگولہ ساں کبھی جیوں چشم خوں بستہ
ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا
پرندوں کی طرح شاخوں میں چھپ کر جھولتا مڑتا
مجھے اک لڑکا آوارہ منش آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہم زاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں
اسے ہم راہ پاتا ہوں یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
خدائے عز و جل کی نعمتوں کا معترف ہوں میں
مجھے اقرار ہے اس نے زمیں کو ایسے پھیلایا
کہ جیسے بستر کم خواب ہو دیبا و مخمل ہو
مجھے اقرار ہے یہ خیمۂ افلاک کا سایہ
اسی کی بخششیں ہیں اس نے سورج چاند تاروں کو
فضاؤں میں سنوارا اک حد فاصل مقرر کی
چٹانیں چیر کر دریا نکالے خاک اسفل سے
مری تخلیق کی مجھ کو جہاں کی پاسبانی دی
سمندر موتیوں مونگوں سے کانیں لعل و گوہر سے
ہوائیں مست کن خوشبوؤں سے معمور کر دی ہیں
وہ حاکم قادر مطلق ہے یکتا اور دانا ہے
اندھیرے کو اجالے سے جدا کرتا ہے خود کو میں
اگر پہچانتا ہوں اس کی رحمت اور سخاوت ہے
اسی نے خسروی دی ہے لئیموں کو مجھے نکبت
اسی نے یاوہ گویوں کو مرا خازن بنایا ہے
تونگر ہرزہ کاروں کو کیا دریوزہ گر مجھ کو
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسارا ہے
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہے میرے قبضہ میں
جز اک ذہن رسا کچھ بھی نہیں پھر بھی مگر مجھ کو
خروش عمر کے اتمام تک اک بار اٹھانا ہے
عناصر منتشر ہو جانے نبضیں ڈوب جانے تک
نوائے صبح ہو یا نالۂ شب کچھ بھی گانا ہے
ظفر مندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر
کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکرانا ہے
وہ خامہ سوزی شب بیداریوں کا جو نتیجہ ہو
اسے اک کھوٹے سکے کی طرح سب کو دکھانا ہے
کبھی جب سوچتا ہوں اپنے بارے میں تو کہتا ہوں
کہ تو اک آبلہ ہے جس کو آخر پھوٹ جانا ہے
غرض گرداں ہوں باد صبح گاہی کی طرح لیکن
سحر کی آرزو میں شب کا دامن تھامتا ہوں جب
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چاہا تھا اک خاشاک عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے جھوٹ ہے دیکھو میں زندہ ہوں
اختر الایمان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *