Iztirab

Iztirab

ایک لڑکی

کیسا سخت طوفاں تھا 
کتنی تیز بارش تھی 
اور میں ایسے موسم میں 
جانے کیوں بھٹکتی تھی 
وہ سڑک کے اس جانب 
روشنی کے کھمبے سے! 
سر لگائے استادہ 
آنے والے گاہک کے 
انتظار میں گم تھی
خال و خد کی آرائش 
بہہ رہی تھی بارش میں 
تیر نوک مژگاں کے 
مل گئے تھے مٹی میں 
گیسوؤں کی خوش رنگی 
اڑ رہی تھی جھونکوں میں 
میں نے دل میں یہ سوچا 
آب و باد کا ریلا! 
اس کو راکھ کر دے گا 
یہ سجا بنا چہرہ
کیا ڈراؤنا ہوگا 
پھر بھی اس کو لے جانا 
آنے والے گاہک کا 
اپنا حوصلہ ہوگا 

بارشوں نے جب اس کا 
رنگ و روپ دھو ڈالا 
میں نے ڈرتے ڈرتے پھر 
اس کو غور سے دیکھا 
سیدھا سادہ چہرہ تھا 
بھولا بھالا نقشہ تھا 
رنگ کم سنی جس پر 
کیسے دھل کے آیا تھا 
زرد پھول سا پتا 
گیسوؤں میں الجھا تھا 
شبنمی سا اک قطرہ 
آنکھ پر لرزتا تھا 
راکھ کی جگہ اس جا 
اک دیا سا جلتا تھا 

مجھ کو یوں لگا ایسے
جیسے میری بیٹی ہو 
میری ناز کی پالی 
میری کوکھ جائی ہو 
ڈال سے بندھا جھولا 
طاق میں سجی گڑیاں 
گھر میں چھوڑ آئی ہو 
تیز تیز چلنے پر 
میں نے اس کو ٹوکا ہو 
ہاتھ تھام لینے پر
میرا اس کا جھگڑا ہو 
کھو گئی ہو میلے میں 
بہہ گئی ہو ریلے میں 
اور پھر اندھیرے میں 
اپنے گھر کا دروازہ 
خود نہ دیکھ پائی ہو

دفعتاً یہ دل چاہا 
اس کو گود میں بھر لوں 
لے کے بھاگ جاؤں میں 
ہاتھ جوڑ لوں اس کے 
چوم لوں یہ پیشانی
اور اسے مناؤں میں 
پھر سے اپنے آنچل کا 
گھونسلہ بناؤں میں 
اور اسے چھپاؤں میں 

زہرا نگاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *