Iztirab

Iztirab

ایک ماحول اچھوتا چاہوں

ایک ماحول اچھوتا چاہوں 
صحن کے نام پہ صحرا چاہوں 
کائناتیں مرے خوابوں کی اسیر 
اور قدرت سے میں کتنا چاہوں 
تربیت مری زمیں نے کی ہے 
میں خلاؤں میں لپکنا چاہوں 
جتنے تاریک گھروندے ہیں وہاں 
دل کی قندیل جلانا چاہوں 
بخشوانے کو گناہ آدم 
پھر سے فردوس میں جانا چاہوں 
دوزخ انسان پہ ہو جائے حرام 
رب سے یہ وعدۂ فردا چاہوں 
خشک پتے نہ شجر سے چھینے 
بس یہ احسان ہوا کا چاہوں 
مری ضد کون کرے گا پوری 
شام کو صبح کا تارا چاہوں 
مرا ہر کام الگ دنیا سے 
جس کو چاہوں اسے تنہا چاہوں 
ہجر کی کتنی تمازت ہے ندیمؔ 
اب کسی یاد کا سایا چاہوں 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *