Iztirab

Iztirab

ایک نظم

چھٹپٹے کے غرفے میں 
لمحے اب بھی ملتے ہیں 
صبح کے دھندلکے میں 
پھول اب بھی کھلتے ہیں 
اب بھی کوہساروں پر 
سر کشیدہ ہریالی 
پتھروں کی دیواریں 
توڑ کر نکلتی ہے 
اب بھی آب زاروں پر 
کشتیوں کی صورت میں 
زیست کی توانائی 
زاویے بدلتی ہے 
اب بھی گھاس کے میداں 
شبنمی ستاروں سے 
میرے خاکداں پر بھی 
آسماں سجاتے ہیں 
اب بھی کھیت گندم کے 
تیز دھوپ میں تپ کر 
اس غریب دھرتی کو 
زر فشاں بناتے ہیں 
سائے اب بھی چلتے ہیں 
سورج اب بھی ڈھلتا ہے 
صبحیں اب بھی روشن ہیں 
راتیں اب بھی کالی ہیں 
ذہن اب بھی چٹیل ہیں 
روحیں اب بھی بنجر ہیں 
جسم اب بھی ننگے ہیں 
ہاتھ اب بھی خالی ہیں 
اب بھی سبز فصلوں میں 
زندگی کے رکھوالے 
زرد زرد چہروں پر 
خاک اوڑھے رہتے ہیں 
اب بھی ان کی تقدیریں 
منقلب نہیں ہوتیں 
منقلب نہیں ہوں گی 
کہنے والے کہتے ہیں 
گردشوں کی رعنائی 
عام ہی نہیں ہوتی 
اپنے روز اول کی 
شام ہی نہیں ہوتی 

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *