Iztirab

Iztirab

ایک نظم

بظاہر اجنبی ہو تم 
مگر بوسوں کی بے کیفی بتاتی ہے 
کہ یہ وہ زہر ہے چکھا ہے جس کو بارہا میں نے 
نہ جانے جذب ہے میرے لبوں میں کتنے رخساروں کی کڑواہٹ 

یہ سب خمیازہ ہے 
اس بوسۂ اول کا دل بھولا نہیں جس کی حلاوت کو 
میں اس کو بارہا سمجھا چکا ہوں 
ماضیٔ مرحوم کا ماتم تو کر سکتے ہیں، واپس لا نہیں سکتے 
مگر دل، دل ہے اس کو کون سمجھائے 
یقیں ہے آج تک اس لمحۂ اول کی اس کو بازیابی کا 
اسیر وہم ہے اتنا 
گماں ہونے لگا ہے ریگ صحرا پر بھی پانی کا 
اسے دیوانگی کہہ لو 
فراز تشنگی سمجھو 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *