Iztirab

Iztirab

ایک کمرۂ امتحان میں

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو 
بے خیال ہاتھوں سے 
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں 
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں 
سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں 
ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کہ تکتے ہیں 
دوسروں کہ پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں 
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے 
بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے 
مُجھ کو دیکھتے ہیں تو 
یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں 
دائرے بناتے ہیں 
جیسے ان کو پرچے کہ سب جواب آتے ہیں 
اس طرح کہ منظر میں 
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا 
نقل کرنے والوں کہ 
نت نئے طریقوں سے 
آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا 
کس طرف سے جانے یہ 
آج دِل کہ آنگن میں اِک خیال آیا ہے 
سیکڑوں سوالوں سا اِک سوال لایا ہے 
وقت کی عدالت میں 
زندگی کی صورت میں 
یہ جُو ترے ہاتھوں میں اِک سوال نامہ ہے 
کس نے یہ بنایا ہے 
کس لئے بنایا ہے 
کچھ سمجھ میں آیا ہے 
زندگی کہ پرچے کہ
سب سوال لازم ہیں ، سب سوال مشکل ہیں 
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو 
بے خیال ہاتھوں سے 
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں 
کوئی دیکھتا ہے تُو 
دائرے بناتا ہوں ، حاشیے لگاتا ہوں 
.یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *