Iztirab

Iztirab

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور
کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے
اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں
نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے
سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں
کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے
آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا
خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے
شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا
عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے
جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا
روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے
فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں
زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے
یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل
حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے
گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال
دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے
لطف دل بستگی عاشق شیدا کو نہ پوچھ
دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے
کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ
.زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے

خواجہ حیدر علی آتش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *