Iztirab

Iztirab

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے 
نفرت گہہ عالم سے لعنت گہہ ہستی سے 
ان نفس پرستوں سے اس نفس پرستی سے 
دور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ہم پریم پجاری ہیں تو پریم کنہیا ہے 
تو پریم کنہیا ہے یہ پریم کی نیا ہے 
یہ پریم کی نیا ہے تو اس کا کھویا ہے 
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
بے رحم زمانے کو اب چھوڑ رہے ہیں ہم 
بے درد عزیزوں سے منہ موڑ رہے ہیں ہم 
جو آس کہ تھی وہ بھی اب توڑ رہے ہیں ہم 
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے 
ارمانوں کا قاتل ہے امیدوں کا رہزن ہے 
جذبات کا مقتل ہے جذبات کا مدفن ہے 
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آپس میں چھل اور دھوکے سنسار کی ریتیں ہیں 
اس پاپ کی نگری میں اجڑی ہوئی پرتیں ہیں 
یاں نیائے کی ہاریں ہیں انیائے کی جیتیں ہیں 
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک مذبح جذبات و افکار ہے یہ دنیا 
اک مسکن اشرار و آزار ہے یہ دنیا 
اک مقتل احرار و ابرار ہے یہ دنیا 
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا بستی ہے گناہوں کی 
دل چاک امیدوں کی سفاک نگاہوں کی 
ظلموں کی جفاؤں کی آہوں کی کراہوں کی   
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آنکھوں میں سمائی ہے اک خواب نما دنیا 
تاروں کی طرح روشن مہتاب نما دیا 
جنت کی طرح رنگیں شاداب نما دنیا 
للّٰلہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
وہ تیر ہو ساگر کی رت چھائی ہو پھاگن کی 
پھولوں سے مہکتی ہو پروائی گھنے بن کی 
یا آٹھ پہر جس میں جھڑ بدلی ہو ساون کی 
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
قدرت ہو حمایت پر ہمدرد ہو قسمت بھی 
سلمیٰؔ بھی ہو پہلو میں سلمیٰؔ کی محبت بھی 
ہر شے سے فراغت ہو اور تیری عنایت بھی 
اے طفل حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق ہمیں لے چل اک نور کی وادی میں 
اک خواب کی دنیا میں اک طور کی وادی میں 
حوروں کے خیالات مسرور کی وادی میں 
تا خلد بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو 
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو 
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو 
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مغرب کی ہواؤں سے آواز سی آتی ہے 
اور ہم کو سمندر کے اس پار بلاتی ہے 
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے 
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل 
اک ایسی فضا جس تک غم کی نہ رسائی ہو 
دنیا کی ہوا جس میں صدیوں سے نہ آئی ہو 
اے عشق جہاں تو ہو اور تیری خدائی ہو 
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ایک ایسی جگہ جس میں انسان نہ بستے ہوں 
یہ مکر و جفا پیشہ حیوان نہ بستے ہوں 
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں 
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
برسات کی متوالی گھنگھور گھٹاؤں میں 
کہسار کے دامن کی مستانہ ہواؤں میں 
یا چاندنی راتوں کی شفاف فضاؤں میں 
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ان چاند ستاروں کے بکھرے ہوئے شہروں میں 
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں 
ٹھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہروں میں 
اے خضر حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی بہشت آئیں وادی میں پہنچ جائیں 
جس میں کبھی دنیا کے غم دل کو نہ تڑپائیں 
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں 
لے چل تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اختر شیرانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *