Iztirab

Iztirab

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گوارہ نہیں
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے مرا ذوق نظر آزما لیجیے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر یا تو نذریں نہیں یا نظارہ نہیں
جانے کس کی لگن کس کے دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی پھر بھی کہتے ہیں ہم نے پکارا نہیں

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *