Iztirab

Iztirab

بات میری کبھی سنی ہی نہیں

بات میری کبھی سنی ہی نہیں 
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں 
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں 
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں 
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد 
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں 
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے 
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں 
جان کیا دوں کہ جانتا ہوں میں 
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں
ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے 
پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں 
ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں 
یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں
دل لگی دل لگی نہیں ناصح 
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں 
داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا 
.وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں

داغ دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *