Iztirab

Iztirab

بات کرنی مُجھے مشکل کبھی ایسی تُو نہ تھی

بات کرنی مُجھے مشکل ، کبھی ایسی تُو نہ تھی 
جیسی اب ہے تیری محفل ، کبھی ایسی تُو نہ تھی 
لے گیا چھین کہ کون آج تیرا صبر و قرار 
بے قراری تُجھے اے دل کبھی ایسی تُو نہ تھی 
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادُو 
کے طبیعت میری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی 
عکس رخسار نے کس کہ ہے تُجھے چمکایا 
تاب تُجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی 
اب کی جُو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف 
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی 
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنُوں 
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تُو نہ تھی 
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل 
وہ تیرے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی 
چشم قاتِل میری دشمن تھی ہمیشہ لیکن 
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی 
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار 
.خو تیری حور شمائل کبھی ایسی تُو نہ تھی 

بہادر شاہ ظفر 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *