Iztirab

Iztirab

باڑھ

ندی کی لہریں 
سوتے سوتے 
جیسے ایک دم جاگ پڑیں 
اور جھپٹ پڑیں 
ان گیلے گیلے 
مٹی بالو کنکر 
پتھر اور سیمنٹ کے 
پشتوں پر 
جن سے ان کو باندھ کے 
سب نے رکھ چھوڑا تھا 
لہک لہک کر 
ناچ ناچ کر 
شور مچاتی 
چاروں اور 
گلی گلی کوچے کوچے میں 
گھروں میں صحنوں میں کمروں باغوں میں 
کونے کونے میں وہ 
جھٹ پٹ 
گھس آئیں 
چڑھ دوڑیں 
کوئی چیز نہ چھوٹی ان سے 
برتن، باسن
زیور، کپڑے 
کرسی، میز
کتابیں 
بھولے بسرے 
خط پتر 
تصویریں 
دستاویزیں 
تحریریں 
بے کار پڑی چیزیں 
وہ جن کے ہونے کا بھی پتہ نہ تھا 
لہروں نے ان کو گھیر لیا 
دامن میں اپنے 
بھینچ لیا 
کیچڑ مٹی میں لت پت کر ڈالا 
اور سب کچھ لے کر ڈوب گئیں
پھر جیسے اک دم آئی تھیں
ویسے ہی ہر ہر کرتی 
بل کھاتی، اٹھلاتی
نکل گئیں 
۲
اے کاش، دلوں میں روحوں میں 
ایسی اک چنچل باڑھ آئے 
بے کار ڈروں کے ڈھیروں پر 
ہمت کی لہریں بکھرا دے 
خود غرضی کے صندوقوں کو 
اک جھٹکا دے کر الٹا دے 
پھاڑے لالچ کی پوٹوں کو 
جالوں کو جہل و شقاوت کے 
اور ظلم کی گندی مکڑی کو 
چکنی کالکھ کو تعصب کی 
نابود کرے ناپید کرے 
یوں نم کر دے دل کی کھیتی 
امیدیں سب لہرا اٹھیں 
گل نار شگوفے الفت کے 
سوکھی جانوں سے پھوٹ پڑیں 
اے کاش دلوں میں روحوں میں 
ایسی اک چنچل باڑھ آئے 

سجاد ظہیر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *