Iztirab

Iztirab

باکرہ

آسماں تپتے ہوئے لوہے کی مانند سفید 
ریگ سوکھی ہوئی پیاسے کی زباں کی مانند 
پیاس حلقوم میں ہے جسم میں ہے جان میں ہے 
سر بہ زانو ہوں جھلستے ہوئے ریگستاں میں 
!تیری سرکار میں لے آئی ہوں یہ وحش ذبیح 
مجھ پہ لازم تھی جو قربانی وہ میں نے کر دی 
اس کی ابلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک 
اور سیہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک 
تیرا فرمان یہ تھا اس پہ کوئی داغ نہ ہو 
سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا ان دیکھا بھی 
بے کراں ریگ میں سب گرم لہو جذب ہوا 
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبا 
اے خدا وند کبیر 
!اے جبار 
!متکبر و جلیل 
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے 
اب کوئی پارہ ابر آئے کہیں سایہ ہو 
اے خدا وند عظیم 
!باد تسکیں! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے 
.قطرہ آب کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *