Iztirab

Iztirab

بدلی کا چاند

خورشید وہ دیکھو ڈوب گیا ظلمت کا نشاں لہرانے لگا 
مہتاب وہ ہلکے بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا 
وہ سانولے پن پر میداں کے ہلکی سی صباحت دوڑ چلی 
تھوڑا سا ابھر کر بادل سے وہ چاند جبیں جھلکانے لگا 
لو پھر وہ گھٹائیں چاک ہوئیں ظلمت کا قدم تھرانے لگا 
بادل میں چھپا تو کھول دیے بادل میں دریچے ہیرے کے 
گردوں پہ جو آیا تو گردوں دریا کی طرح لہرانے لگا 
سمٹی جو گھٹا تاریکی میں چاندی کے سفینے لے کے چلا 
سنکی جو ہوا تو بادل کے گرداب میں غوطے کھانے لگا 
غرفوں سے جو جھانکا گردوں کے امواج کی نبضیں تیز ہوئیں 
حلقوں میں جو دوڑا بادل کے کہسار کا سر چکرانے لگا 
پردہ جو اٹھایا بادل کا دریا پہ تبسم دوڑ گیا 
چلمن جو گرائی بدلی کی میدان کا دل گھبرانے لگا 
ابھرا تو تجلی دوڑ گئی ڈوبا تو فلک بے نور ہوا 
الجھا تو سیاہی دوڑا دی سلجھا تو ضیا برسانے لگے 
کیا کاوش نور و ظلمت ہے کیا قید ہے کیا آزادی ہے 
.انساں کی تڑپتی فطرت کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *