Iztirab

Iztirab

بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
اور پھر آنکھ چراتے ہو یہ کیا کرتے ہو
بعد میرے کوئی مجھ سا نہ ملے گا تم کو
خاک میں کس کو ملاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
ہم تو دیتے نہیں کچھ یہ بھی زبردستی ہے
چھین کر دل لیے جاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
کر چکے بس مجھے پامال عدو کے آگے
کیوں مری خاک اڑاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
چھینٹے پانی کے نہ دو نیند بھری آنکھوں پر
سوتے فتنے کو جگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
ہو نہ جائے کہیں دامن کا چھڑانا مشکل
مجھ کو دیوانہ بناتے ہو یہ کیا کرتے ہو
محتسب ایک بلانوش ہے اے پیر مغاں
چاٹ پر کس کو لگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
کام کیا داغ سویدا کا ہمارے دل پر
نقش الفت کو مٹاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
پھر اسی منہ پہ نزاکت کا کرو گے دعویٰ
غیر کے ناز اٹھاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
اس ستم کیش کے چکموں میں نہ آنا بیخودؔ
حال دل کس کو سناتے ہو یہ کیا کرتے ہو

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *