بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے یہ اور طرح کا چاہنا ہے ہے وعدۂ وصل آج مجھ کو اسباب طرب بساہنا ہے ہیں ناوک غمزہ گرچہ کاری میرا ہی جگر سراہنا ہے دنیا ہے سرائے فانی اس میں جو آیا ہے یاں سو پاہنا ہے چتون میں کہے ہے یوں وہ مغرور تجھ سے مجھے کیا نباہنا ہے اے مصحفیؔ دل رہا ہے پیچھے اس کو بھی ذرا نباہنا ہے
غلام ہمدانی مصحفی