Iztirab

Iztirab

بغاوت نفس

زندگی محبوب ہے پھر بھی دعائیں موت کی 
مانگتا ہے دل مرا دن رات کیوں 
قسمت غم گیں کے ہونٹوں پر کبھی 
آ نہیں سکتی خوشی کی بات کیوں 
کیوں نگاہوں پر مری چھائے ہیں آنسو کے نقاب 
اس سوال مستقل کا کیوں نہیں ملتا جواب 
کیا خودی کی الجھنیں میرے ارادے توڑ کر 
کر رہی ہیں مجھ کو اس دنیا میں ناکام حیات 
کیوں نہیں آتی وہ رات 
جس کی خرم تر سحر 
آرزو ہے مجھ سے ہو اب ہم کلام 
راحتیں معدوم ہیں میرے تخیل سے تمام 
راستہ مجھ کو نظر آتا نہیں 
راستہ مجھ کو خوشی کا کیوں نظر آتا نہیں 
چل مرے دل آج اس محدود خلوت سے نکل 
ہاں سنبھل قعر خموشی میں نہ گر ہاں اب سنبھل 
بے خودی مسلک بنا لے بھول جا سب آج کل 
چھوڑ دے مرکز کی چاہت مضطرب ہو اور مچل 
سینۂ آتش فشاں کی طرح گرمی سے ابل 
چل مرے دل راستہ خوشیوں کا دیکھ 
اور شعلہ عیش کے لمحوں کا دیکھ 
دل گرفتہ آنسوؤں کو خشک کر 
دیکھ رستہ آنسوؤں کو خشک کر 
چھوڑ دے مرکز کی چاہت مضطرب ہو اور مچل 
چل مرے دل آج اس محدود خلوت سے نکل 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *